شعوب و قبائل کا قرآنی فلسفه اور عصر حاضر میں اس کے ساتھ تعامل
(ندگان)پدیدآور
پدیدآور نامشخصنوع مدرک
Textمقاله پژوهشی
زبان مدرک
فارسیچکیده
قرآن مجید میں شعوب و قبائل کا مقصد انسانوں کے مابین رنگ ونسل اور قومیت میں اختلاف کی وجہ تعارف و پہچان بتایا گیا ہے ۔ یہ واضح کیا گیا کہ عند اللہ تکریم صرف متقی کی ہوگی۔ اسی فلسفہ کے لیے نبی اکرم ﷺ کو "وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ" کا حکم ہوا ۔دورحاضر میں "لِتَعَارَفُوا" کی تفہیم میں تین مختلف جہات ہیں :(1)انسان کے نسب کی پہچان مقصود ہوتی ہے۔جیسےفلاں سید ہے۔(2) چند مخصوص خاندانی بری خصلتوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ یہ پہلو تضحیک کا معنی اپنےضمن میں لیے ہوتا ہے۔(3)تعارف و پہچان کا ایک غلط طریقہ یہ بھی اپنایا گیاکہ کم ظرف اور بری عادات کے مالک لوگ اپنی خفت مٹانے کے لیے اپنی نسبت ایسے خاندان سے کرتے ہیں جن کی پہچان ایک باعزت گھرانے کے طور پر ہوتی ہے۔اسلام میں حسب ونسب کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ دور حاضر میں مؤخر الذکر دو جہتوں کی وجہ سے لوگ اپنے حسب و نسب سے دوری اختیار کر سکتے ہیں اور یہ خاندانی نظام کے ٹوٹنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ جبکہ یورپ میں آج بھی شیفرڈ،ٹیلرز جیسے الفاظ ان کے ناموں کے ساتھ ملتے ہیں جس کو عار محسوس نہیں کیا جاتا۔اس مقالے میں شعوب و قبائل کے فلسفے کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جائے گا۔
کلید واژگان
شعوبقبائل
فلسفہ
تعامل
معاشرہ
شماره نشریه
4تاریخ نشر
2018-06-221397-04-01




